Quma e saba ka waqiya in Urdu
اہل سرسار کی ایک قوم جسے قوم صباح بھی کہا جاتا ہے. اللہ تعالی کی بے شمار نعمتوں کے اندر زندگی گزار رہی تھی. یہ قوم ایک عظیم تہذیب و تمدن کی مالک تھی حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی باعظمت حکومتوں کے بعد ان کی حکومت زبان زد خاص و عام تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ گندم کے مرغ سے آٹا peace کر روٹیاں پکاتے تھے لیکن اس قدر اسراف کرنے والے اور نا شکرے تھے کہ انہیں روٹیوں کے ساتھ بچوں کا پاخانہ صاف کرتے تھے۔ ان آلودہ روٹیوں کو اکٹھا کرنے سے ایک پہاڑ بن گیا تھا ایک صالح شخص نے وہاں سے گزرتے ہوئے ایک عورت کو دیکھا جو روٹی کے ساتھ بچے کے پاخانے کے مقام کو صاف کر رہی تھی. اس شخص نے عورت سے کہا تیرے اوپر افسوس خدا سے ڈر کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا تیرے اوپر اپنا غضب ڈھائے اور تجھ سے اپنی نعمت چھین لے اس عورت نے جواب میں مذاق اڑایا اور مغرورانہ انداز میں کہا جاؤ جاؤ گویا کہ مجھے بھوک سے ڈرا رہے ہو جب تک سرسار جاری ہے مجھے بھوک سے کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اللہ تعالی نے حوس بازوں اور اصراف کار لوگوں پر اپنا غضب ڈھایا پانی جو کہ زندگی کی بنیاد ہے ان لوگوں سے چھین لیا تھا۔ قحط نازل ہوا بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کی ذخیرہ کی ہوئی تمام غذا ختم ہو گئی۔ آخرکار وہ مجبور ہوگئے کہ انہیں آلودہ روٹیوں پر ٹوٹ پڑیں جو ان لوگوں نے اکٹھی کر کے پہاڑ کے مانند ڈھیر لگایا ہوا تھا بلکہ وہاں سے روٹی لینے کے لیے صف لگتی تاکہ ہر کوئی وہاں سے اپنے حصے کی روٹی لے سکے کفران نعمت، قحط اور ان کی بدحالی کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں۔ سورہ نحل کی آیت نمبر ایک سو بارہ اور ایک سو تیرہ میں۔ یوں ارشاد ہوتا ہے اللہ نے اس قریہ کی بھی مثال بیان کی ہے جو محفوظ اور مطمئن تھا۔ اس کا رزق ہر طرف سے باقاعدہ آ رہا تھا۔ لیکن اس کریا کے رہنے والوں نے اللہ کی نعمتوں کا انکار کیا تو خدا نے انہیں بھوک اور پیاس کا مزہ چکھایا۔ صرف ان کے ان اعمال کی بنا پر کہ جو وہ انجام دے رہے تھے۔ اور یقینا ان کے پاس رسول آیا۔ تو انہوں نے اس کی تقویت کر دی تو پھر ان تک عذاب آ پہنچا کہ یہ سب ظلم کرنے والے تھے۔ اسی قوم صبا کے بارے میں ایک اور واقعہ بیان ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنی زراعت کو بہتر طور پر کاشت کرنے کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی خاطر بلک کے دو پہاڑوں کے درمیان ایک بہت بڑا بند مغرب تعمیر کیا ہوا تھا۔ سوراخ اور دوسرے پہاڑوں سے گزرا ہوا پانی اس بند میں آ کر وافر مقدار میں جمع ہو جاتا تھا۔ قوم صبا نے اس پانی سے صحیح طور پر استفادہ کرتے ہوئے وسیع و عریض اور بہت سے خوبصورت باغات لگائے. اور کھیتی باڑی کو رونق بخشی. ان باغات کے درختوں کی شاخیں اس قدر پھلوں سے لدی ہوئی ہوتی تھیں. کہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص سر پر ٹوکری رکھ کر ان کے نیچے سے گزرتا پھل خود بخود ٹوکری میں گرنا شروع ہو جاتے اور قلیل مدت میں ٹوکری تازہ پھلوں سے بھر جاتی۔ اس قوم کے بہت سارے دیہات اور کریے تھے جو بہت آباد اور آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ لیکن نعمتوں کی کثرت نے انہیں شکر کرنے کے بجائے سر مست اور غافل کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ ان کے درمیان بہت بڑا طبقاتی نظام وجود میں آ چکا تھا ان میں سے صاحب اقتدار لوگوں نے کمزوروں اور ضعیفوں کا خون چوسنا شروع کر رکھا تھا یہاں تک کہ ان لوگوں نے خدا سے ایک احمقانہ التماس کیا جس کا ذکر سورہ سباقی آیت نمبر انیس میں ملتا ہے انہوں نے کہا خدایا ہمارے سفروں کے درمیان فاصلہ زیادہ کر دے۔ انہوں نے اللہ تعالی سے یہ التماس اس لیے کیا تاکہ غریبوں بے نوا لوگ عمرہ اور سروت مندوں کے ہمراہ سفر نہ کریں۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ آبادیوں کے درمیان خشکی ہو۔ اور فاصلہ بہت زیادہ ہو۔ تاکہ تہی دست اور کم آمدنی والے لوگ ان کی طرح سفر نہ کر سکیں۔ اللہ تعالی نے ان مغرور پیٹ کے پجاریوں پر اپنا غضب نازل کیا۔ بعض تواریخ کے مطابق ان مغرور لوگوں کی آنکھوں سے دور سحرائی چوہوں نے معارب نامی بند کی دیواروں پر حملہ کر کے انہیں اندر سے کھوکھلا کر دیا. ادھر سے بارشیں زیادہ ہوئیں جن کی وجہ سے سیلاب آ گیا بند میں پانی بہت زیادہ اکٹھا ہو گیا اچانک بند کی دیواریں ٹوٹی اس سے ایک بہت بڑا سیلاب آیا جس میں تمام دیہات آبادیاں مال مر مال مویشی, باغات, کھیتیاں ان کے محل اور گھر. پانی میں غرق ہو کر نابود ہو گئے. ان کے باغات اور زراعت میں سے صرف کچھ پیلو اور بیری کے درخت اور کچھ جھاڑیاں بچی تھیں خوش الحان پرندے وہاں سے کوچ کر گئے تھے جبکہ الوؤں اور کووں نے قوم سباق کے کھنڈرات میں اپنے گھونسلے بنا دیے تھے. اس بات کا ذکر سورہ صبا کی آیت نمبر پندرہ اور سولہ میں ملتا ہے اور آخر میں سورہ صبا کی آیت نمبر سترہ میں قرآن کریم میں اس واقعہ کا یوں نتیجہ نکالا ہے. یہ ہم نے ان کی ناشکری کی سزا دی ہے. اور ہم ناشکروں کے علاوہ کسی کو سزا نہیں دیتے ہیں